برلن،10نومبر(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)متعدد جرمن دانشوروں نے چانسلر انگیلا میرکل کے نام ایک کُھلا خط لکھا ہے، جس میں اُن سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ترکی کی جیلوں میں قید مقامی دانشوروں کی رہائی کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کریں۔
جرمنی میں ثقافتی شعبے سے تعلق رکھنے والے کئی نمایاں افراد نے ترکی میں اسی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اور عہدیداروں کے ساتھ اضافی سیاسی یکجہتی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں دارالحکومت کی برلن اکیڈمی آف آرٹس کی قیادت میں متعدد دیگر تعلیمی و فلاحی اداروں نے ایک کھلا خط تحریر کیا ہے، جس میں ترکی میں سرگرم صحافیوں، مصنفوں، سائنسدانوں اور اپوزیشن کے اہلکاروں کے حقوق کے لیے جدوجہد پر زور دیا گیا ہے۔
ترکی میں رواں برس پندرہ جولائی کو صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ بعد ازاں اس ناکام کوشش میں ملوث ہونے یا پھر امریکا میں مقیم ایردوآن کے سیاسی مخالف فتح اللہ گولن کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام میں ترکی میں سینکڑوں صحافیوں، مصنفوں، سائنسدانوں اور دانشوروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
جرمنی میں فرینکفرٹ بک فیئر، جرمن اکیڈمک ایکسچینج سروس اور کلچر فورم ترکی جرمنی جیسی تنظیموں اور اداروں نے مطالبہ کیا ہے کہ چانسلر میرکل ترکی میں قید دانشوروں کی فوری رہائی کے لیے آواز بلند کریں اور اس سلسلے میں تمام تر سفارتی طریقہ کار کو بروئے کار لایا جائے۔
جرمن دانشوروں اور تعلیمی و ثقافتی اداروں کی جانب سے یہ خط ایک ایسے موقع پر تحریر کیا گیا ہے جب چند روز قبل ہی جرمن وزارت خارجہ نے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ جن ترک شہریوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ان کے سیاسی نقطہ نظر اور حکومت پر تنقیدی نظریہ رکھنے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، انہیں جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے کی اجازت ہے۔
جرمنی اور ترکی کے مابین ثقافتی تبادلے کے فورم کے ترجمان عثمان اوکان نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی طور پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ترکی میں حالات و واقعات بہتری کی طرف جانے سے قبل خرابی کی طرف بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا، عوام کو ترکی کو ایک اور سمت سے بھی دیکھنا ہو گا۔ جمہوری سمت سے، نہ کہ صرف ایردوآن پر توجہ جاری رہے۔ ہمیں آہستہ آہستہ ملک میں سرگرم جمہوری قوتوں کو تقویت بخشنی ہو گی اور اسے یقینی بنانا ہو گا کہ ان کی آوزایں بھی سنائی دیں۔ اوکان کے بقول ترکی کی صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ صدر ایردوآن آمرانہ طرز کی صدارات سے متعلق اپنے مقصد کے حصول کے لیے کس طرح بے رحمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔